کابل (مشال ڈیجیٹل نیوز ڈسک) افغانستان میں طالبان حکومت کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے خواتین کی تعلیم پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ اگست 2021 کے بعد، جب طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا، لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں اور بعدازاں یونیورسٹیوں میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ فیصلہ عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ تو بنا، لیکن عملی طور پر عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے خاطر خواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
خواتین کے مستقبل پر منفی اثرات
تعلیم پر پابندی نے افغان خواتین کے مستقبل کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ لاکھوں لڑکیاں جو ڈاکٹر، انجینئر، استاد یا دیگر شعبوں میں کیریئر بنانے کی خواہشمند تھیں، اب گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
ماہرین کے مطابق تعلیم سے محرومی نہ صرف انفرادی ترقی کو روکتی ہے بلکہ معاشرتی و معاشی ڈھانچے پر بھی تباہ کن اثرات ڈالتی ہے۔ خواتین کی تعلیم پر قدغن کا مطلب ہے کہ ایک پوری نسل کی ذہانت اور صلاحیت کو ضائع کیا جا رہا ہے۔
عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کا کردار
اگرچہ اقوامِ متحدہ، یونیسکو، یورپی یونین اور متعدد مغربی ممالک نے طالبان کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، لیکن اس مذمت سے آگے کوئی مؤثر عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف بیانات اور رپورٹس جاری کر دینا ان لڑکیوں کے لیے کافی نہیں جن کے خواب چھین لیے گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے متعدد بار طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین کی تعلیم پر سے پابندی ہٹائی جائے، لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ طالبان پر بین الاقوامی دباؤ ناکافی رہا ہے۔
کیا مزید کچھ کیا جا سکتا تھا؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے پاس کئی آپشنز موجود تھے، جن میں امدادی فنڈز کی مشروطی، سفارتی دباؤ، اور طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا شامل ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اقدام مؤثر انداز میں اختیار نہیں کیا گیا۔
بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ عالمی طاقتیں اب افغانستان کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھتیں، اور یہی وجہ ہے کہ خواتین کی تعلیم جیسا بنیادی انسانی حق بھی عالمی بےحسی کا شکار ہو رہا ہے۔
افغان خواتین کی جدوجہد
اس کے باوجود، افغان خواتین نے ہمت نہیں ہاری۔ مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں خفیہ اسکولز چلائے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی خواتین اپنے حق میں آواز بلند کر رہی ہیں، لیکن یہ سب خطرات سے خالی نہیں۔
نتیجہ
افغان لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ افغانستان کے مستقبل کو بھی تاریک بنا رہی ہے۔
سوال یہ ہے: کیا اقوامِ متحدہ اور دنیا کے بڑے ممالک صرف تماشائی بنے رہیں گے؟ یا وہ عملی قدم اٹھائیں گے تاکہ افغان خواتین کو ان کا بنیادی حق — تعلیم — واپس مل سکے؟