امریکہ–چین تجارتی جنگ میں وقفہ، لیکن اصل برتری کس کے پاس؟

واشنگٹن —(مشال ڈیجیٹل نیوز ڈسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ جاری تجارتی کشیدگی میں ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے نئی محصولات کو مؤخر کر دیا اور 90 روزہ تجارتی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات میں وقتی نرمی پیدا ہوئی ہے اور ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کی قیاس آرائیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کی حکمتِ عملی اب تک بظاہر کامیاب نظر آ رہی ہے، لیکن کئی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ چین کے پاس ایسے کئی مضبوط معاشی اور سیاسی حربے موجود ہیں جو مستقبل میں امریکہ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں چین کے ساتھ لچکدار رویہ اپنایا ہے، تاہم بھارت، پاکستان اور تائیوان جیسے ممالک کے ساتھ سخت پالیسی اور بعض معاشی اقدامات نے امریکہ کی عالمی اسٹریٹجک پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔

چین کی مضبوط معاشی اور سیاسی ساخت نے اسے طویل المدتی دباؤ برداشت کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نہ صرف اپنے اندرونی اقتصادی استحکام کو مضبوط کر رہا ہے بلکہ الیکٹرک گاڑیوں، مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹرز جیسی صنعتوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت دنیا بھر میں اپنے تجارتی روابط کو وسعت دی ہے، امریکہ کے سرکاری بانڈز میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اور نایاب دھاتوں کی عالمی سپلائی پر نمایاں کنٹرول رکھتا ہے — یہ سب ایسے عوامل ہیں جو اسے کسی بھی تجارتی مذاکرات میں برتری دیتے ہیں۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2018 میں چین کی برآمدات میں امریکہ کا حصہ تقریباً 20 فیصد تھا جو 2023 تک کم ہو کر تقریباً 13 فیصد رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین نے اپنے اندرونی بازار کو مستحکم بنایا ہے، جس سے وہ بیرونی دباؤ کے باوجود اپنی معیشت کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امریکی صارفین کے لیے چین کی مصنوعات محض تجارتی سامان نہیں بلکہ روزمرہ ضرورت ہیں، جن میں ایئر کنڈیشنر، الیکٹرانکس اور اہم ادویات شامل ہیں۔ ان مصنوعات پر انحصار کم کرنا ممکن نہیں، جب کہ چین کے پاس خام مال اور ٹیکنالوجی میں برتری اسے عالمی مارکیٹ میں ایک طاقتور کھلاڑی بناتی ہے۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے وقتی طور پر چین کے ساتھ کشیدگی کو کم کر کے ایک سفارتی کامیابی ضرور حاصل کی ہے، لیکن شی جن پنگ کے پاس اب بھی ایسے کئی “ٹرمپ کارڈز” موجود ہیں جو آنے والے مہینوں میں امریکہ کے لیے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں