اسلام آباد — (مشال ڈیجیٹل نیوز ڈسک) پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی ایک بار پھر خبروں کی سرخیوں میں ہے۔ تازہ ترین پیش رفت میں پاکستان نے اسلام آباد میں موجود بھارتی سفارت خانے اور اس کے عملے کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات معطل کر دی ہیں، جن میں گیس، پانی اور اخبارات کی ترسیل شامل ہے۔
یہ فیصلہ بظاہر بھارت کے حالیہ اقدامات کے جواب میں کیا گیا ہے، جنہیں پاکستان نے “غیر دوستانہ اور اشتعال انگیز” قرار دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے اس اقدام کو “سفارتی آداب کے خلاف” کہا ہے اور ممکنہ جوابی کارروائی پر غور شروع کر دیا ہے۔ اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو پاکستان کے سفارت کاروں کو بھی نئی دہلی میں اسی نوعیت کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماضی کے سائے اور موجودہ تناؤ
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کے سفارتی اقدامات دیکھنے کو ملے ہوں۔ ماضی میں بھی کشیدگی کے دوران، ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے، سہولیات کم کرنے اور حتیٰ کہ عملے کی تعداد گھٹانے جیسے اقدامات کیے جا چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدامات محض وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک وسیع تر سفارتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس میں ایک ملک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم، اس کا نتیجہ اکثر مزید تلخی اور مذاکرات میں تعطل کی صورت میں نکلتا ہے۔
خطے پر اثرات
خطے میں پہلے ہی کئی مسائل جنم لے رہے ہیں—کشمیر تنازع، سرحدی جھڑپیں، اور تجارتی روابط کی معطلی۔ ایسے میں سفارتی کشیدگی میں اضافہ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے کی امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کو سفارتی چینلز کھلے رکھنے چاہئیں تاکہ اختلافات مذاکرات کی میز پر حل کیے جا سکیں، ورنہ یہ سلسلہ ایک خطرناک سفارتی کھیل میں بدل سکتا ہے جس کا انجام دونوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔